مسئلہ "فاتحہ خلف الامام" کی وضاحت! نیز اگر کوئی شخص فاتحہ پڑھے جانے کے بعد جماعت میں شامل ہوگا تو کیا فاتحہ پڑھے گا؟ ، فتاویٰ آن لائن، شیخ الاسلام مولانا محمد اسحاق مدنی رحمتہ اللہ علیہ

 سوال:

تجمل حسین صاحب پوچھتے ہیں:

"اکثر آپ سے سنا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا بھی درست ہے اور نہ پڑھنا بھی ، دلائل کی روشنی میں یہ دونوں کام ٹھیک ہیں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ایک آدمی اس وقت نماز میں شامل ہوا جس وقت سورۃ پڑھی جارہی ہے اور فاتحہ پڑھی جا چکی ہے۔ اب اس نے نہ تو فاتحہ پڑھی اور نہ ہی سنی اب وہ شخص کیا کرے گا؟"

Fatiha-khalf-ul-imam-by-moulana-ishaq-madni-ftawa-online


جواب:

شیخ الاسلام مولانا محمد اسحاق مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"تجمل حسین صاحب!

فاتحہ پر اصرار اور ضد نے دین میں اتنے مسئلے کھڑے کر دیے ہیں جن کا کوئی اندازہ نہیں۔ جن میں سے ایک تو یہی ہے جو آپ نے پوچھا: "نماز جہری ہے، امام بلند آواز سے قرات کر رہا ہے، جب مقتدی ساتھ شامل ہوا تو امام فاتحہ پڑھ چکا ہے اور بعد میں کوئی سورت تلاوت کر رہا ہے۔"

اس موقع پر قرآن مجید اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان حکم دیتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اسے غور سے سنو۔

[ حوالہ: قرآن کریم » الأعراف » 204 ، مسلم»کتاب الصلاۃ»باب التشہد فی الصلاۃ» ص۲۱۴-۲۱۵» الحدیث: ۶۲-۶۳(۴۰۴) ] 

لہذا مقتدی کو چاہیے کہ بجائے فاتحہ پڑھنے کے وہ امام کا قرآن سنے۔ اگر مقتدی پہلے سے جماعت میں شامل ہوتا تو فاتحہ پڑھ لیتا، پھر گنجائش تھی۔ اب اتنا اندھیر اور ظلم کہ امام قرآن پڑھ رہا ہے اور مقتدی پیچھے بجائے قرآن سننے کے فاتحہ پڑھ رہا ہے۔ جب اس نے امام کی اقتدا ہی نہیں کرنی تو اس کا مقتدی ہی کیوں بنا؟ میں نے خود لوگوں کو اپنے ساتھ کھڑے دیکھا ہے کہ امام سورت پڑھ رہا ہوتا ہے اور وہ پیچھے فاتحہ۔ اب آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ امام آگے سورت پڑھ رہا ہے اور مقتدی پیچھے فاتحہ، اس معاملے میں مقتدی کے اندر امام کی اقتداء والی کوئی بات ہے؟ جب امام کا قرآن ہی نہیں سننا تو اس کے پیچھے کھڑے ہونے کا کیا فائدہ؟

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص رکوع میں شامل ہو جائے تو اس کی وہ رکعت ہو جاتی ہے۔ اس مسئلہ کو پوری امت مانتی ہے، کوئی ایک عالم بھی اس مسئلہ کے خلاف نہیں تھا۔ فاتحہ پڑھنے والے بھی مانتے تھے اور نہ پڑھنے والے بھی مانتے تھے کہ قیام کی بات الگ ہے، اگر کوئی آدمی رکوع میں شامل ہو گیا تو اس کی وہ رکعت ہوجائیگی۔ کوئی صحابی اور کوئی بھی امام اس مسئلہ کے خلاف نہیں تھا۔

اسی لئے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لکھا ہے کہ اس مسئلہ پر تو امت کا اجماع ہے۔ اور اب بھی جو کتابیں نجدی علماء کی آئی ہیں اس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے کہ رکوع کی رکعت نہیں ہوتی، کیوں نہیں ہوتی؟ پوری امت کا اعتقاد ہے کہ وہ رکعت ہوتی ہے۔

باقی اللہ کی مرضی ہے کہ مقتدی فاتحہ پڑھے یا نہ پڑھے، جیسے ہم سفر کی نماز قصر کرتے ہیں اور دو رکعت پڑھتے ہیں۔ جو دو رکعت ہم نے چھوڑ دیں وہ کوئی کم فرض تھیں۔ لیکن اللہ تعالی نے سفر کی حالت میں معاف فرما دیں۔ قیام کی بات الگ ہے لیکن رکوع میں مل جانے پر رکعت ہو جائے گی۔ اس میں کسی عالم کا اختلاف نہیں۔


(اس کے بعد مولانا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل بیان کرتے ہیں۔ جو ذیل میں دے دیا گیا ہے۔)


صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل:

حَدثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: نا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ، مِنْ دَارِهِ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا تَوَسَّطْنَا الْمَسْجِدَ رَكَعَ الْإِمَامُ، فَكَبَّرَ عَبْدُ اللَّهِ، ثُمَّ رَكَعَ وَرَكَعْتُ مَعَهُ، ثُمَّ مَشَيْنَا رَاكِعَيْنِ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى الصَّفِّ، حَتَّى رَفَعَ الْقَوْمُ رُءُوسَهُمْ، قَالَ: فَلَمَّا قَضَى الْإِمَامُ الصَّلَاةَ قُمْتُ أَنَا، وَأَنَا أَرَى لَمْ أُدْرِكْ، فَأَخَذَ بِيَدِي عَبْدُ اللَّهِ فَأَجْلَسَنِي، وَقَالَ: «إِنَّكَ قَدْ أَدْرَكْتَ»

مصنف ابن أبي شيبة (1/229/2622)

زید بن وھب کہتے ہیں کہ میں اور ابن مسعود ان کے گھر گهر سے مسجد کی طرف نکلے۔ جب ہم مسجد پہنچے تو امام رکوع میں تھا۔ تو ابن مسعود نے تکبیر کہہ کر رکوع کیا، اور میں نے بھی ان کے ساتھ رکوع کیا۔ پھر ہم رکوع کی حالت میں ہی چلتے ہوئے صف تک پہنچے اور پھر لوگوں نے رکوع سے سر اٹھایا۔ پھر جب امام اپنی نماز سے فارغ ہوا تو میں اپنی نماز پوری کرنے کھڑا ہو گیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ میری رکعت چھوٹ گئی تھی۔ تو حضرت ابن مسعود نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور فرمایا "تمہیں رکعت مل چکی تھی"

شیخ البانی نے کہا: اس کی سند صحیح ہے (إرواء الغليل 2/263)

حافظ زبير علی زئی نے کہا: اس کی سند صحیح ہے (ماہنامہ الحديث 30/13)


اور یہ منسوخ بھی نہیں ، بعد میں بھی صحابہ ایسا کرتے تھے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے دس پندرہ صفحوں میں یہ بحث کی ہے۔ فاتحہ پر ضد نے کئی باتیں من گھڑت شروع کروا دی ہیں۔


لا صلاۃ الا بفاتحۃ الکتاب کا جواب:

جو شخص فاتحہ پڑھے جانے کے بعد یا رکوع میں جماعت کے ساتھ شامل ہوا، اسے فاتحہ کی رخصت ہے۔

(مطلب امام کے پیچھے ایسے مقتدی کے لئے یہ حکم نہیں ، جو فاتحہ پڑھے جانے کے بعد جماعت میں شامل ہوا ، بلکہ امام کے پیچھے فاتحہ اگر نہ بھی پڑھی جائے تو نماز درست ہوتی ہے۔) 

اس کے علاوہ جو شخص جماعت کے شروع میں شامل ہوا اس کے لئے تین راستے ہیں۔


1۔ امام کے پیچھے آرام آرام سے فاتحہ پڑھے۔

2۔ بالکل خاموش رہے۔

3۔جب امام بلند آواز سے قرات کر رہا ہو تو سنے اور جب امام آہستہ آواز سے قرات کر رہا ہو تو پڑھے۔


پہلی صورت میں امام کو چاہئے کہ وہ آہستہ آہستہ قرات کرے۔ مطلب الحمداللہ پڑھ کے سکتہ کرے۔ جس کے درمیان مقتدی یہ آیت پڑھ لے۔فاتحہ کے اختتام تک ایسا ہی کرے۔ یہ کئی صحابہ جیسے ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کا طریقہ ہے۔ اگر کوئی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھ لے تو کوئی بات نہیں ، اس کے منہ میں آگ نہیں پڑے گی۔

زیادہ تر صحابہ کرام تیسرا طریقہ اختیار کرتے تھے۔ یعنی وہ جہری نمازوں میں خاموش رہتے تھے اور سری نمازوں میں فاتحہ بھی پڑھتے تھے اور ساتھ سورت بھی پڑھتے تھے۔ سب سے کم اصحاب وہ تھے جو کسی بھی نماز میں پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔ جن میں کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالی عنہ شامل ہیں۔

اسی لیے یہ تینوں طریقے درست ہیں۔ ان میں سے تیسری عدل کی بات ہے کہ آدمی جہری نماز میں سنے اور سری نماز میں پڑھے۔ جب کہ دوسرے دونوں طریقے بھی جائز ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان تین طریقوں میں سے کسی ایک پر عمل کرنے والے کی نماز نہیں ہوتی۔ اسی لئے جو بھی بڑے سے بڑا عالم فاتحہ خلف الامام پر کتاب لکھتا ہے تو اس کے شروع میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی یہی تین قسمیں بیان کرتا ہے۔ جب آپ نے مان لیا کہ صحابہ تین طرح کے ہیں تو کس کو کہو گے کہ اس کی نماز نہیں۔



فتاویٰ آن لائن 2012

مسئلہ نمبر:005

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے